ماضی
|
ماضی کا اِک سفر ہے جو کہيں رکتا نہيں
اب کوئی دل کسی کے لئيے تڑپتا نہيں زندگی ہر گام پہ اکيلی ہی رہے گی شايد گزرے ہم سفروں سے اب کوئی پلٹتا نہيں زيست کا بوجھ اٹھائے سب زندہ ہيں دل سے آہ اور آنکھ سے آنسو گرتا نہيں مدتيں بيت گئيں اُسکی صورت ديکھے اسکا رستہ ميري راہوں سے الجھتا نہيں انا بھی اک شئے ہے جو خالی لوٹا دے اتنی سی بات کو وہ اب تک سمجھتا نہيں اجنبی بہت ڈھيٹ ہے يہ کاروبارِ زندگی کوئي تمھاری طرع اب بے دام بکتا نہيں |